چھَلنی دِل سے بڑی ٹِیس اُٹھتی ہے
نادان دھڑکن آہستہ آہستہ رُکتی ہے
بے زار سفرِخیال کی جانِب بڑھتے ہوُۓ
ایک سُنسا ن کھَنڈر کی طرف راہ مُڑتی ہے
شور برپا ہے خاموشیوں کے ڈھیر تلے
دبے آنسوؤں کے قا فلے میں رات ڈھلتی ہے
سُنہری بادل میں لِپٹی تقدیر ہو جیسے
ما تھے پہ مہتاب بن کے چمکتی ہے
رُوکھی رُوح کے گھنے جالے ہیں چار سُو
خالی مکاں کے جھرونکے سے آرزو ٹپکتی ہے
Wah
LikeLike
Wah
LikeLike