عرُوج پہ جنُون تھا تو تب سب اچھا تھا
وقت جب آوارہ تھا تو تب سب اچھا تھا
ادھُورے پِہر کی آغوش میں جو کھیلا تھا
اُس مات کا نظارہ تب اچھا تھا
کسک سے نہ آشنائ تھی اُسے جو
سنجیدہ تھا اِک دَور تب سب اچھا تھا
پرستِش کے قابِل تو تھا وہ مُجسّمہ
کا فِرانہ انداز تھا اِنسان تب وہ اچھا تھا
آتِش سے کون سُلگاۓ موم کی گرمی کو
پِگھلتی شمعٰ کا پروانہ تب وہ اچھا تھا