میری ذات سے لِپٹی ہیں یوُں جالوں کی قطاریں
ریشم بُنتی بھی نہیں گِرہَ کھولتی بھی نہیں
خُوش فہمی کی عِما رت یوں تعمِیرِ عمل ہے
سچ سُنتی بھی نہیں جُھوٹ چھُپاتی بھی نہیں
شرم و حیا سے آراستہ یوں زیورِ ہستی ہے
نظر اُٹھا تی بھی نہیں پَلک جُھکا تی بھی نہیں
سِراجِ اُلفت میں پیوست ہے یوں لَؤِ شمعٰ
اِرادہ کرتی بھی نہیں پِیچھے ہٹتی بھی نہیں