وہ دریا کے مانند دھِیما ہے
میں سمُندر کی طرح طُوفانی ہُوں
وہ قوسِ قزح کے رنگ پھیلاتا ہے
مُجھے آبشاروں سا برسنا آتا ہے
اُس کی دھڑکنیں سُنائ دیتی ہیں
میرے دِل پہ دستکیں ہوتی رہتی ہیں
اُس کی سانسوں میں ہوا مدہوش ہے
میری آہوں میں آندھیوں سی شِدّت ہے
اُس کی نظروں میں ہزاروں پیغام ہیں
میری نِگاہیں کئ سوَال اُٹھا تی ہیں
وہ چلے تو ذِندگی تھم جا ۓ
میری رفتار کی کوئ زنجیِر نہیں
وہ اپنی راتوں کو تھام لیتا ہے
مُجھے شب بھر بے چینی رِہتی ہے
اُس کے لمحوں میں سکُون پِنہاں ہے
میرے لمحے تڑپتے مچلتے رہتے ہیں
اُس کی دُھوپ میں گِہری چھاؤں ہے
میری چھاؤں میں جلتا آفتاب ہے
اُس کے لِہجے میں شائِستگی رَس گھولتی ہے
میری بے تکلّفی میری پِہچان ہے
اُس کے سرُور میں خُماری ہے
میں جنُون پہ فریفتہ ہُوں
اُسے ذیب دیتا ہے با وقار ہونا
میری شوخی میرے عکس کا آئینہ ہے
وہ ایک ٹھنڈک کا اِحساس دِلاتا ہے
میرا وجُود جلنے کے سِوا کُچھ بھی نہیں
very nice indeed
LikeLike
شکریہ
LikeLike