پسِ آئینہ عکسِ یار نظر آتا ہے
اپنا آپ مجھے دِلدار نظر آتا ہے
میں کون ہُوں یہ ذات اِک پہیلی ہے
ہاتھ کی لکیروں میں اُس کا نام نظر آتا ہے
مُجھ سے ذیادہ وہ مُجھ میں شامِل ہے
قطرہِ خوُن بھی اب انجان نظر آتا ہے
چَمکتے رہو تُم میری سَر ذمین پر
اِس آنچل کو بس سِتاروں کا پتہ آتا ہے
ہر لمحہ اب دھڑکنیں سُنائ دیتی ہیں
میرے دِل پہ تیرا پیغامِ قیام آتا ہے
جانِ شمعٰ پہ ہے سَلطنت تیری صنم
میری رُوح کے تُو آر پار نظر آتا ہے
Great poem
LikeLiked by 1 person