آنسوُ چُھپائیں کب تک نِیندیں گنوائیں کب تک
کِرن تو دستک دے چُکی سوگ منائیں کب تک
قِسمت کی آڑ میں چُھپی بربادی نظر آئ تو
دامن میں آگ بُجھانے کے ڈر کو چُھپائیں کب تک
تیرے ساۓ نے در کھولے ہیں موت کے چاروں اَور
ذِندگی کے پیچھے بھاگتےخود کو رُلائیں کب تک
میری بے بسی نے ہاتھ پَکڑا ہے میرا کُچھ اِس طرح
تیری کسک کی خوشبُو سے پِیچھا چھُڑائیں کب تک
رات کی سیاہی پہ کہکشاں کا رقص دیکھا تو ہے
ادھُورے چاند کی تنہائ کے داغ کو ٹُھکرائیں کب تک