آج دِل پھر غمگین سا ہے
اُس کا وجُود ہم نشیِن سا ہے
سایہ جو ہر سُو پیچھے پڑا ہے
اُس کا سراب دِل نشِین سا ہے
نیند سے بیدار ہوُئ جو کروٹ
خواب کُچھ اُس کا رنگین سا ہے
رُوح میں اُتر گیا جو سانس بن کر
قطرۂِ خُون وہ نمکِین سا ہے
چُرا لِیا جس نے میرا سب کُچھ
چاند وہ تھوڑا ذمِین سا ہے