جاتے جاتے وہ مُجھے نذرانہ دے گیا
ہونٹوں کو پیاس آنکھوں کو شرمانہ دے گیا
برق سی لِہر خُونِ جگر چِیرتی رہی
نۓ سِلسلوں کو انداذ قاتِلانہ دے گیا
نظریں ٹِھہری رہیں وقت چلتا رہا
چند بِسروں میں ایک زمانہ دے گیا
چُھپتی رہی شمعٰ جلالِ یار میں
قندِیل کی سوغات میں آشیانہ دے گیا
Very nice,
LikeLike
Thank you but who is this?
LikeLike
It was Umar
LikeLike
Oh ok.
LikeLike