ساحِرآنکھوں کے ٹکراتے ہی
صُبحیں آزاد راتیں قیدی
مُحبّت بے خود، مراسم قرِین ہیں
آدھی سوئ آدھی جاگی حسرتوں میں
پِنہاں بے اِختیار انگڑائیاں اور
اِن میں بَستی جوان ترستی
شبنم کی ذندگی جِن سے
سیراب ہوتی ایک ایک بُوند
جو فریادکرتی ہے ایک گُھونٹ کی
ساحِرآنکھوں کے ٹکراتے ہی
جب بِجلیاں گردِش کرتی ہیں
جُستجو دائروں میں مِل جاتی ہیں
اور کَسمساتی آگ کے ارمانوں تلے
جب ہوتے ہیں اندھیرے اجنبی
تب ایک رُت کی بدلی سے
چھاؤں جھانکنے لگتی ہے اور
سُرخ شرم کے جوبن پر یہ
پھُول مَسلتے رہتے ہیں
ساحِرآنکھوں کےٹکراتے ہی
اَنچھُوئ مست تمنّائیں جَگتی ہیں اور
گرم جذبوں کی حرارت سے
فِشاں ہوتے ہیں راز تب اور
شوخ نظروں سے جام پِیتے ہوُۓ
لَڑکھڑاتے بھی ہیں اور پِلاتے بھی ہیں