خود سے ڈر لگتا ہے کہ
سمندر کی آغوش
میں چُھپ کے
اُس کی دھڑکنوں کے
شور کو سُن کے
جو پُکارتا ہے مُجھے
خود میں سما جانے کو
اور گہرے پُر کشش
نیلے رنگوں میں
گَر کھو جاؤں
تو کیا ڈُوب جانے کا ڈر ہے؟
خُود سے ڈر لگتا ہے جب
خوشبو جو جھانکتی ہے
دریچوں سے تب
میرے جانم کی
کشش سے تڑپتا ہے
وجود کُچھ اِس طرح
کہ شمعٰ کِھنچی جانا
چاہتی ہے باہوں
میں مر جانے کو
تو کیا مُکمّل ہو جانے کا ڈر ہے؟
ہاں خُود سے ڈر لگتا ہے
کہ کہیں موم بن کر
اُس کی ہتھیلی پہ
پِگھل نہ جاؤں اور
قطرہ قطرہ جلوُں تو
یہ کسک بڑھتی ہی جاۓ
تب خود کو سونپُوں
اُس کے شعلوں میں
تو کیا فنا ہو جانے کا ڈر ہے؟
اور خود سے ڈر لگتا ہے
جب چمکتے چاند کے
نُور میں نہا کے
نِکلوں اور ریزہ ریزہ
ہو جاؤں اُس شبنمی
لمس میں نِکھر جاؤں
تو کیا سنور جانے کا ڈر ہے؟
اب خود سے ڈر لگتا ہے
ٹُوٹیں جسم تو
سمبھلیں گے کیسے
پھر اِن زنجیروں
میں جکڑے واپس
لَوٹیں بھی
تو کیا آزاد ہو جانے کا ڈر ہے؟