کھو جاتے ہیں خیالِ سفر میں اجنبی بن کے یُوں
نہ بُلاؤ اُن رونقوں میں جہاں میرے مِحبوب کا ذِکر نہ ہو
احساسِ راحت سے ہیں میری تنہائی کے راز درخشاں
نہ دھکیلو اُن محفلوں میں جہاں میرے مِحبوب کا ذِکر نہ ہو
پابندئیِ اظہار ہو تو حریفِ وفا خوشیاں سمیٹتے نظر آئیں
نہ لے جاؤ اُن شاموں میں جہاں میرے مِحبوب کا ذِکر نہ ہو
طوِیل ہیں گھڑیاں جنہیں بے آسرا کرتے ہیں بے خبر دل
نہ جلاؤ اُن اُجالوں میں جہاں میرے مِحبوب کا ذِکر نہ ہو