دل میں اُٹھتے طُوفان کا شور
اُس کی دھڑکنیں سُن لیتی ہیں
اور وہ اپنے حسین وجوُد کے
گرم موسموں سے سفر کرتا
میری آنکھوں کے سِتاروں میں
جب گُم ہو جاتا ہے تو
….مُجھے اپنا آپ نظر نہیں آتا
آج ایسے بے شُمار لمحے
اور اُن کے ماتھے پہ سجتے
میری تقدیر کے سہارے جِنہیں
چُھوئیں تو بنیں شبنم
پا لیں تو سمندر اور اِن
سِلسلوں میں جگتے وہ
خوشگوار پَل جن کی قسمت سے
روشن ہوتے اُجا لے اور
دیکھتے ہی دیکھتے جب وہ
سویرے جگمگا ئیں تو
….مُجھے اپنا آپ نظر نہیں آتا
جِن قدموں میں زندگی دم
توڑتی نظر آۓ تو لازم ہے
بندگی سجدوں میں ادا ہو
تب میری شناخت اُس میں ایسے
رَچ جاۓ جیسے شمعٰ میں آنچ
اور عشق کی سیڑھی چڑھتے چڑھتے
بُلند جب ہونے لگتی ہوُں تب
…..مُجھے اپنا آپ نظر نہیں آتا