نِگاہِ یار کی کششِ سرُور سے بےکل ہوُۓ جاتے ہیں
چلو رُوحِ سمندر میں اُتر کر خُود کو دیکھ لیتے ہیں
نام و نِشاں نہیں مِلتا سایۂِ خُودی میں گُم ہو جاؤں گر
چلو جھرونکۂِ سیاہی میں اُتر کر خُود کو دیکھ لیتےہیں
تلا طُمِ جنوُن کو چھُوتے ہی ڈوریں اُلجھ سی جاتی ہیں
چلو لمسِ ریشم میں اُتر کر خوُد کو دیکھ لیتے ہیں