وہ نظر ابھی تک
جذب ہے جس کی
خُماری چُومتی ہے
چِلمنوں کے موتی
اور اِن کی عِنایت سے
چمکنے لگتی ہے
نشِیلی نیند جِس
کی کروٹ میں
قید مُحبّت مجھے
….دیوانہ بنا جاتی ہے
وہ لمس ابھی بھی
اِحساس کی گردش میں
چُبھ رہے ہیں
جن کی گواہی سے
یہ نقش اُس کے
اثر میں گُھلے
جاتے ہیں اور اُن
گرم ہاتھوں میں
گر اُنگلیاں دَم
توڑیں تو یہ حرارت
اِس پاگل وجود کو
….نشیلا بنا جاتی ہے
دوڑتی اِک لہر کی
جلن سے یہ جسم
اُلجھے دھاگوں میں
بندھا جاتا ہے اور
پھر گیلی ریت کے
ساحِل پر جب
دُھلتے ہیں راستے
اِس طرح کہ خاک
کی اُڑھتی دھوپ اِسے
…..مُکمّل بنا جاتی ہے
اِن دھڑکنوں میں
ابھی بھی وہ
بےچینی ہےجِسکے
چھوُتے ہی دل نے
تسلیم کیا اُس
شِدّت کو جِس کی
دستک نے نۓ سازوں
میں حُسن بھر کے
زندگی بخشی ہے
اور اِس بے پرواہی کی
آزاد کسک اِسے
….آوارہ بنا جاتی ہے
What a wonderful way of imagining and expressing the thoughts.
LikeLike
Thank you so much for always appreciating
LikeLike