دیکھتی ہُوں ! اِک مچلتی لِہر
دوڑتی آرہی ہے دُور تلک
سما جانے کو لُٹ جانے کو
اپنے معشُوق کی باہوں میں
اُس کی شِدّت میں پوشیدہ
طوفان ہے اور جنون سی تیزی بھی
سرسراتی جِھلملاتی موجیں
اُبھرتے جذبات لیۓ ایک نۓ
کھیل کو جگا رہی ہیں
یہ تیرا ذِکر ہے شاید جو
موجیں مستانی ہُوئی جاتی ہیں
اُف! تیری بے مِثال داستانیں
یہاں بھی گھیرے ہیں مجھے ہر دم
خُود سے مُحبّت کرنے لگی ہوں میں بھی
کیونکہ تیرا وجُود اب شامل ہے
مُجھ میں اِن موجوں کی طرح جو
گواہ ہیں میرے قتل کی
تیرے پیغام لے کے آتی ہیں
شاید یہ لِہریں ، کیا کہنے
کیا تُجھ تک کوئی مُحبّت نامہ
پُہنچا ہے ابھی تک ؟