اِن خوابوں کے جھمیلوں میں
جب سَچ کی دُھول اُترتی ہے
اور تلخ کڑوی پیاس کوئی جب
گھُونٹ بن کر اَٹکتی ہے تب
حقیقت کے سفید ورقوں پہ
سیاہی کا رنگ جب چڑھتا ہے
پھر چند جھُوٹے کِردار اور نقلی
افسانے پروان چڑھتے ہیں
اور اِن بے جان رُوحوں میں
جَگتی ہیں بناوٹی جِسموں کی
راکھ اور پِھر ہاتھوں کی لکیریں
…..مدھم نظر آنے لگتی ہیں
سُہانے پَلوں سے لِپٹے شاخ
کے جھُولتے سبز پتّے اور
اُن کے رس کو پیتے ہُوۓ
زرّہ زرّہ جب بھرنے لگے
نسوں میں زہر کا نشہ
تب دُور کہیں ایک فاختہ
اپنے پَر کٹنے کا جشن منا رہی ہوتی
ہے جِس کی اُڑان اِک حسرت
میں قید اُس آندھی کی شِدّت
اُڑا لے جاتی ہےاور تب
اُس کے آدھے مظبُوط اور
پُورے اِرادے جب ٹُوٹتے نظر
آئیں تب اُسے اپنی تقدیر
…..مدھم نظر آنے لگتی ہے