رُوح کِھچتی چلی گئی اُن لبوں میں ریزہ ریزہ ہو کر
اِس شباب و اُلفت کے کھیل میں عکس چُھپ سا گیا ہے
عالمِ اِنتہا میں ٹُوٹے شِدّتِ وصل تڑپ کے باہوں میں
اِس کسک و جلن کے کھیل میں وجُود بِہک سا گیا ہے
کِتنی بے چین تھی اُن ہاتھوں کی نرماہٹ میں یہ کلیاں
اِس وجد و تِشنگی کے کھیل میں ساغر چھَلک سا گیا ہے
شمعٰ کی کروٹوں میں آندھیوں کے شور کی ہلچل تھی
اِس موم و شبنم کے کھیل میں جسم پِگھل سا گیا ہے