
دِل چاہے کہ روز
نئی کونپلوں کو
خُود میں بَنتے دیکھوں
پھر اِن کے جوبن سے
آراستہ ہوں حُسن
اور کِھلے گُلشن جب
اِس بدن کی سُرخ
شام میں جگیں سُرمئی
خواب جن میں
….سرُور کے سِوا کُچھ نہ ہو
دل چاہے کہ اُس ذُلف
کی سیاہ رات سے
اِس رُخ پہ اندھیرے
جگمگائیں اور وہ چُنے
تب اِن ہیِروں کی چمک
سے چَند نرمگیں پل
جن میں بِہہ کے ساحِل
کو بھُول جائیں اور پائیں
ایسی منزلیں جن میں
….روشنی کے سِوا کُچھ نہ ہو
دل چاہے کہ سرد شُعلہ
ہلکے ہلکے بُجھے اور
اِس ٹھنڈک سے پیر جلیں
تب بِچھنے لگُوں اُن قدموں
کی خوبصورت آغوش میں
اورنس نس میں دوڑتی
آگ اِس تاثیر کو ایسے
سُلگاۓ جِس میں
….بے خُودی کے سِوا کُچھ نہ ہو