رنگوں کو فقط ذیب دیتا ہے بِکھرنا ، گرچہ میں بِکھروُں تو کیا ہو
پِھر سوچتی ہوُں آتش اَفروز کس رنگ میں نِہلاۓ گا مُجھے
پِگھل رہے ہیں بادل شمس کی تپِش سے جو بے تاب ہیں برسنے کو
اگر یہ گُستاخی تُجھ سے ہو تو میں خُدا سے بھی لَڑ جاؤں
اُس کا عکس نظر آنے لگا ہے مُجھے اِن سُنہری رنگوں میں اب تو
یہ آئینۂِ تصوّر ہےساقی کا جس کی کشِش میں جذب ہوئی جاتی ہوں
کائینات کے رنگ ہیں جامنی گُلابی اور کبھی سُرمئی بھی
رمز شناس ہو رنگِ عشق کو پِہچانو اِ نہیں سنوارو، اور ضبط نہ کرو
بے مِثال تُو نہیں تیری شِدّت ہے جس کی ذیست سے شمعٰ روشن ہے
جانِثار کرتی ہوں پروانے پر جس کی عِبادت میں آیت نہیں اُس کا نام یاد ہے