مُحبّت کی کَڑی زنجیِرمیں بندھےہاتھ ہیں
سِتم گر نے قیدِ عاشقی میں مزارکھا ہے
سیلابِ درد میں چُھپا سرُور کا دریا ہے
سِتم گر نے بربادئِ دل میں مزا رکھا ہے
خُود کےآنسو پیتےہیں آبِ مےسمجھ کر
سِتم گر نے پیالۂِ زہر میں مزا رکھا ہے
شمعٰ اپنے وجود کو مِٹتا دیکھ رہی ہے
سِتم گر نے سوزِ آتِش میں مزا رکھا ہے