مُجھ سے شناساں ہے وہ قاتل دھڑکن
آشنائی کی حد گرَ شکست دے تو کیا کیجیۓ
اندھیرا خُوب چمکتا ہے اُس کے آنگن میں
روشن میری گلیاں گرَ ہوں تو کیا کیجیۓ
چاند سجدے کرتا ہے اُس کے قدموں میں
عبادت میں گرَاُس کا نام لُوں تو کیا کیجیۓ
دھنک اُدھار لیتی ہے اُس سے نۓ رنگ
اُس کے رُوپ میں گرَ نہا لُوں تو کیا کیجیۓ
شام اُن نظروں کی تاب سےحسن و جوان ہے
اِس جوبن پہ گرَ وہ اپناکرم کر دےتو کیا کیجیۓ
اُس کے وجُود میں چمک ہے بے پناہ ہیِرے سی
تراش لے گرَ وہ موم سے یہ جسم تو کیا کیجیۓ
Bahot Khoob!!!!
LikeLike