….اُس کے شہر کی گلیوں میں
پُھول کِھلتے ہیں بے حساب اور
گھٹاؤں کے پردوں سے چَھنتی
دھُوپ مُحبّت برساتی ہے
….اُس کے شہر کی گلیوں میں
سُورج میرا نام لیتا ہے اور
چُومتا ہے اِس بدن کی
دِیواروں کو جب تِتلی بن
اُڑنے لگتی ہُوں
….اُس کے شہر کی گلیوں میں
مُسکراہٹ جب دبے پاؤں
آتی ہے اور رونق شاہانہ انداز
میں دستک دیتی ہے تو زندگی
اور خُوبصورت ہو جاتی ہے
….اُس کے شہر کی گلیوں میں
سُناتی ہے صبا عشق کی
کہانیاں تب چاروں اُور
گُلاب کی پنکھڑیاں رقص
کرتی نظر آتی ہیں