وہ جام ہے جس کے لَب کو
چھُوتے ہی بھر جاتے ہیں
راستے سبھی جن کے سبب
سے تڑپتی سانسیں پیاس
کی تلاش میں سمندر کا
رُخ کریں بھی تو باوجُود
…ڈوبنے کے ڈُوب نہیں سکتیں
کُچھ بہکتے لمحوں کے مخمور
تصوّرات ٹھہر گۓ ہیں پلکوں
کی قطاروں پر جن کی دھڑکن
ایسے شور کو جگاتی ہے جس
میں پِگھل کے شبنمی آنچ باوجُود
…بُجھنے کے بُجھ نہیں سکتی
جس تپِش کی گردش میں
سُلگ رہا ہے بدن ایسے کہ
رُوح مُکمّل بھی نہیں اور
ادھُوری بھی نہیں تب بڑھتے
گھَٹتے جذبات میں بہتے
شراروں کی شوخیاں باوجُود
…تَھمنے کے تَھم نہیں سکتیں