بِھیگی رُتوں کے سُوکھے خواب ٹھہر گۓ ہوں جیسے
شَجر کی ڈالیِوں سے جھڑتے ہیں پیوستِ خاک ہونے کو
جَھرنوں سے بِہتے پانی کی رفتار میں جِھجَک سی ہے
دریا کی انگڑائیوں سے مچلتے ہیں سپُردِ موج ہونے کو
شَمس کی مُسکراہٹ اُلفت کو چُھپا رہی ہو پھر بھی
اُفق کی چادروں سے جھانکتے ہیں قوسِ قزح ہونے کو
شراروں کی پِھیکی کِرنوں میں شوخی اِنتہا کی ہے
شمعٰ کی رعنائیوں سے ٹَپکتے ہیں جازبِ راکھ ہونے کو