یہ کیسا وقت ہے جس کے
گُزرتے ہی نہ وہ بے چینی
کا عالم اُسے تڑپاتا ہے نہ ہی
بے تاب آرزو کروٹ لیتی ہے اور
میرے اِنتظار کی شِدّت رُخصت
ہونے لگتی ہے تو کیا میں
سمجھُوں کہ ہِجر کی زرد کلیوں
پہ بہار چھا رہی ہے؟
یہ کیسی آشنائی کے چھَٹتے
بادل ہیں جو اُس پر بارش برساتے
ہیں اور بڑھتی چاہت کے
موسم میرے تن پہ دھوپ چمکاتے
ہیں تو کیا میں سمجھُوں کہ
فُرقت کی گھٹاؤں پہ
بِجلیاں گِرنے والی ہیں؟
یہ کیسی ڈھلتی شام ہے
کیفیّت کی جو اُسے چھاؤں میں
نہلاتی ہے اور میرے دل کی
شوخ دیواریں غرُوب ہونے کا
دعویٰ کرتی ہیں تو کیا میں
سمجھوُں کہ ناکام کوشش
کے سایوں میں
فاصلے اُترنے والے ہیں؟