مکَمّل ہوتے ہی رنگِ تصویر چُھپنے لگے ہیں کناروں میں
سُرخ گُلاب کبھی زرد تو کبھی صفا ہُوۓ جاتے ہیں
محفلِ رنگ سجائی ہےکاغذ کےپھُولوں سےکہ برقرار رہے
مہکتے گُلشن کبھی دشت تو کبھی صحرا ہُوۓ جاتے ہیں
بےجان بُت تراش کر پچھتاوےکی ڈور سے بندھ گئی زندگی
سنگ تراش کبھی بشَر تو کبھی خُدا ہُوۓ جاتے ہیں
عجب حُسن و شباب کی پھیکی رونقوں سےلُبھاتےہیں ذات کو
تماشائی کبھی زہر تو کبھی دوا ہُوۓ جاتے ہیں