شام ہوتے ہی پھُول اُسے چُومتے ہیں
رات ڈھلتے چاندنی اُسے نہلاتی ہے
ستارے اُس کے آنچل میں سِمٹ آتے ہیں
آفتاب اُس کے بدن سے کِرنیں سیکتا ہے
…..کیونکہ گُلبدن اُسے کہتے ہیں
سویرا اُسے شبنمی تاج پہناتا ہے
ہوائیں اُس سے خوُشبو اُدھار لیتی ہیں
نرم چھاؤں اُس کی ذلفوں کو سہلاتی ہے
اُس کی آنکھوں میں مے رس گھولتی ہے
….کیونکہ مہجبیِن اُسے کہتے ہیں
بارش اُس کے عشق میں بےاختیار برستی ہے
اُس کی پایل سے سرگم بجنے لگتے ہیں
چوُڑیاں رقص کرتی ہیں اُس کی کلائی پہ
اُس کی مُسکراہٹ میں دھنک کے رنگ شامل ہیں
…..کیونکہ بہار اُسے کہتے ہیں
گجرے کی کلیاں مہکاتی ہیں وجُود اُس کا
سمندر اُس کی گہرائی میں ڈُوب جاتا ہے
اُس کے ہونٹ آبِ حیات کا پیالہ ہیں
مہندی اُس کی ہتھیلی پہ رنگ سجاتی ہے
….کیونکہ گُلزار اُسے کہتے ہیں