کیا اِن باہوں سے دُور رہ سکو گے؟
کیا اِن پناہوں سے دُور رِہ سکو گے؟
جن سانسوں میں کروٹ لیتے تھے
اُن خوابوں سے دُور رِہ سکو گے ؟
سِتاروں کی محفل جو سجائی تھی
اُن شاموں سے دُور رِہ سکو گے؟
پیاسی آنکھیں بُلاتی ہیں تُمہیں
اِن اُجالوں سے دُور رِہ سکو گے؟
جن شعروں میں جُستجو ہو تُمہاری
اُن افسانوں سے دُور رِہ سکو گے؟
ختم نہ ہو کبھی لگن یہ میری
اِن انتہاؤں سے دُور رِہ سکو گے ؟
آئینے میں چہرہ جو دیکھتے تھے
اُن سرابوں سے دُور رِہ سکو گے ؟
خود کو کھو چُکے ہو جس دل میں
اُن دھڑکنوں سے دُور رِہ سکو گے؟
It is a very powerful poem
LikeLike
Thank you
LikeLike