پلکوں کی چھاؤں میں تڑپتی راتیں
وہ سِتاروں کی روشنی میں لِپٹی چاندنی
اُن یادوں کے سرہانے سمٹی خواہشیں
آغوش کے سایوں میں دو دھڑکتے جذبات
…وہ حسین لمحے نہ ختم ہونے والے سِلسلے
دُعا میں پھیلے ہاتھ ہوں جیسے
سجدےمیں گِرتے گڑگڑاتے ہوں جیسے
خزاں کے سُرخ زرد پتّوں کی زندگی
سُرمئی شام کی آخری کرن ہو جیسے
….وہ حسین لمحے نہ ختم ہونے والے سِلسلے
خوُشبو سے مُعطّر پیروں کی مہندی
احساس کے بِچھونے میں رُوح کی گرمی
شفافیّت میں گھُلی آئینے کی شبی
بارش کی پہلی بُوند جب ہونٹ کو چُبھی
…وہ حسین لمحے نہ ختم ہونے والے سِلسلے
بے تاب آرزو میں لِپٹی کوئی تمنّا ہے
ادھورے عکس کی کیفیّت سے لڑتی رہی
وہ نا مُکمّل رہی اُس آگ میں جل کے
کائینات کی روشنی میں چُھپی کسک ہو جیسے
…وہ حسین لمحے نہ ختم ہونے والے سِلسلے