سمیٹ کر درد باہوں میں خوشیاں بکھیرتی ہوں
دل کے آسمان پہ چاہتوں کے پھُول سجاتی ہوں
بے چین لمحوں کی دھُوپ چھاؤں در گُزر کرتےہُوۓ
مُسکراہٹوں کےچمکیلےآنچل میں ستارے لپیٹتی ہوُں
تپتی ریت کی جلن سے خود کو بچاتے چل نِکلوں
مِہکتی برسات کے موتیوں سے جسم بھگوتی ہوں
رنج و غم سے جب چھلنی ہونے لگتی ہیں سانسیں
روح کے مخملی جھرونکوں میں مُحبّت سمیٹتی ہُوں
پِگھل کر جب شمعٰ نہانے لگتی ہے آنسوُؤں میں
حِدّتِ چنگاری کے جواں جوبن سے ذات سُلگاتی ہوُں