آج پھر اُسی مقام پر رُکنا پڑا جہاں سے تھی چلی
آگے کُہرے ہیں جہاں دیکھوں پیچھے دشت کی تِیرگی
خس و خاک کے ڈھیر تلے بے جان رُوحوں کی صدائیں ہیں
سامنے موت ہے مُنتظر باہیں پھیلاۓ تو پیچھےکفنِ زندگی
فِہرستِ دُشمناں میں ہمدم ہیں بے شُمار جہاں دیکھوں
یاں سازِشوں کے پھَندے ہیں واں دامِ تزویر کی سیاہی
تنِ بے ضمیر میں مَکفُوف مَیّت کو نہیں سہارے کی آرزو
اندر گُھٹن جکڑے ہے نفس کو باہر سِسکتی ہے خامِشی
زہرِ عشق کے کڑوےگھُونٹ نس نس میں اُترتے جاتے ہیں
آگے نرمئِ آغوشِ پیکرِ جاناں پیچھےفیصلِ تقدیر کی ناگُزیری