شِدّتِ جنون ہو دھُوپ میں اگر تو آفتاب خُود غرض کیسے
وہ بے خبر نہ جانے ہے اُس کی ذات سے کتنے تن جل گۓ
بے مثال حُسن و شباب جگا بھی دیں احساسِ بےخُودی اگر
اِس لا عِلمی کی غَفلت میں نہ جانے کتنے دل فنا ہُوۓ
قیدِ آشنائی کے خنجر سے بھلا کوئی بچ سکا ہے آج تک
اِس خُود کُشی کی چاہ میں نہ جانے کتنے بے موت مارے گۓ
دِلفریب سبھی نظر آتے ہیں داغ نُمایاں بھی اور پوشیدہ بھی
اِس سوغاتِ بےاختیاری میں نہ جانے کتنےمرہم ضائع ہُوۓ
قطرہ قطرہ ٹَپکتا ہےلہؤِ جگر گرچہ طلب بڑھتی جاۓ ہے
اِس پاگل پن کی حد میں نہ جانے کتنے ارمان پیاسےلُٹے
قندیل میں چھُپی شمعٰ کو پگھلنے کی اِجازت بھی نہیں
اِس سُنہری پناہ گاہ میں نہ جانےکتنے پروانوں کے وِرد ٹُوٹے