تھک کے جب وہ سوتا ہوگا
اور نیند کے دروازے اُن جھروکوں
میں کُھلتے ہونگے تب ایک سراب
جلتی شمعٰ لیۓ خوابِیدہ آنکھوں
…کی طرف بڑھتا جاۓ گا
جلتی مشعٰل لیۓ اپنے پیراہن
میں لپیٹے جس حدّت سے اُن
دھڑکنوں کے در پہ دستک ہوگی
تب گرم لبوں پہ مدھم سی
…ہنسی بِکھرتی جاۓ گی
اُن آرام پَلوں میں ٹَٹولتی بےچین
سانسیں سرُور کے میٹھے پیالوں
کا رس پینے لگیں گی تب کہِیں
مچلتی چِنگاریاں رُوح کو ہلکا سا
…بِھگوتی نظر آئِیں گی
فِردوس اُس پیکرِ عشق کی آرزو
میں اپنے جوبن سےجب اُن کناروں
کو درخشاں کرے گی تب شجر کی
ڈالیاں اُسے پھُولوں سے نہلائیں گی پھر
اُس راہ سے اِس منزل کا سفر پل بھر
…میں پار ہوتا جاۓ گا
اُن بےخبر نینوں میں چُھپی حسرتوں
کے کِھلتے چمن اُس کے بدن کو گُدگُدانے
لگیں گے تب اِس چاؤ کی لگن
اُسے آہستہ آہستہ نیند سے بیدار
…کرتی جاۓ گی
اور وہ واپس حقیقت میں لَوٹ آۓ گا