..حقیِقت میں

image

…مُحبّت کو مِلتے ہیں

چَند ادھُورے پَل

کُچھ مُرجھائی یادیں

کئی سِسکتے لمحے

خاموش مُلاقاتوں کاسلسلہ

کئی بھُولے افسانے

کُچھ اَن چُھوئی حسرتیں

…محّبت چاہتی ہے

وصل میں ڈُوبتی شامیں

دیدارِیار کی طلَب

ٹھہِرے وقت کی گردِش

گرم بانہوں کا بِچھونا

ستاروں میں چمکتی چھاؤں

بے تاب تمّنا کی لگن

…مُحبّت کی آرزو میں

جلتے ہیں جان و تن

اُجڑتے ہیں آشیانے

رُوح ہوتی ہے فنا

تڑپ بنتی ہے اِنتظار

فِکر و رنج مات دیتے ہیں

بے صبر ہوتا ہے جنُون

…مُحبّت کو گوارا نہیں

دُوری کے ڈستے بِچھّوُ

اشک بہاتے چشم

ہِجر کے جگتے سُورج

سازِش بُنتے جال

بے رُخ ادا و نظر

ڈرتے حوصلوں کا جوش

8 thoughts on “..حقیِقت میں

  1. محبت تو وجدانی جذبہ ہے ، ایک الوہی احساس ، ایک نور ، ایک تڑپ ، ایک کسک ، ایک گداز

    سوز کی بانسری پر بجتا ، ایک ادھورا سا گیت ، کسی کے مہکتے خیال میں ، بہکنے کی طلب اور آرزو

    کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
    زخم دل ، تیری نظروں سے بھی گہرا نکلا

    تشنگی ، جم گئی پتھر کی طرح ، ہونٹوں پر
    ڈوب کر بھی تیرے دریا سے میں پیاسا نکلا

    آپ نے کمال سادگی سے ، اس جذبے کے تمام رنگوں کو ، اس کلام میں پرو دیا ہے

    Like

    1. سلام مسنون

      لکھنے کا شوق تو سب کو ہوتا ہے ، چار شبدوں کی ڈگڈگی بھی لوگ بجا لیتے اٹھے ہیں، مگر ہماری حرف حرف حکایت کی داستاں ہمیشہ ادھوری ہی رہی

      ..بقول شیو کمار بٹالوی ، ” تصویر ” کبھی مکمل نہیں ہوتی ، کبھی چہرہ نہیں ملتا تو کبھی ہاتھ ..کبھی مخروطی و حنائی انگلیاں اپنا سراب چھوڑ جاتی ہیں تو کبھی ” خم کاکل ” کے جال ، اپنی قید میں محصور رکھتے ہیں …بقول غالب

      تو ،……… اور آرائشِ خمِ کاکل
      میں اور اندیشہ ہائے دور دراز

      …کوئی بھی تصویر من مندر سے نکل کر ، صفحۂ قرطاس پر نہیں اترتی

      خواہشیں تو زمین آسمان کی طنابیں ہوتی ہیں ، مگر ہاتھ میں جلتے سانسوں کی ِتہہ میں حسرتوں کے کئی تاج محل جل رہے ہوتے ہیں

      ہم بھی کبھی کبھی ، شکستہ اور ٹوٹی پھوٹی تحریر سے دل بہلا لیتے ہیں ..کہ خالق کو اپنی تخلیق ہر حال میں پیاری و دلاری ہوتی ہے

      مگر

      بقول اقبال

      ” تراشیدم ، پرستیدم ، شکستم ”

      یا بقول اختر شیرانی

      یہ قصہ ہے ، مختصر ، اس طرح
      کہ اختر کے پہلو سے ” عذرا ” گئی

      مگر جو کچھ ہم نے آپکی ستائش میں لکھا ہے ، سچ لکھا ہے کیونکہ جتنا خوبصورت آپ نے لکھا ہے …وہ درحقیقت قابل صد تحسین ہے .
      ..آج کل کے دور میں جہاں ” کاپی اور پیسٹ ” کے بل بوتے پر ، گوگل کا سہارا لے کر ، ” ادبی بزرجمہر ” چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں …اس دور میں آپ جیسی ” فصیح ” اور تفکر انگیز تحریر کو پڑھنا میرے لیئے بہت خوشگوار تجربہ رہا ہے
      ” اوریجنل مگر کلاسیکل اظہار ” آج کل ناپید ہوتا جا رہا ہے …


      مجھے آپکا لنک محترمہ ڈاکٹر فرح نصیب نے عنایت کیا تھا

      خیر اندیش

      Like

      1. Thank you so much for appreciating. If you give me your email, I can send you invitation so each time I post, you will be notified via your email.

        Like

  2. پیوستہ از گزشتہ

    Sorry; wanted to write ” delete” this post but in stead wrote ” delete this email”.

    شاید ِاسے ہی رُعب نادیدہ و ِپنہاں کہتے ہیں.. 🙂

    Like

      1. اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنی ای میل سے ہمیں بھی آگاہ کر دیں …کچھ باتیں ادھر لکھنا مناسب محسوس نہیں ہوتا …
        .

        However it is not any obligation; just my personal set of thinking

        Regards:

        Like

Leave a comment