صنم کے چھُوتے ہی ہر نعمتِ قُدرت بنتی ہے پسند کے قابل
میں دل اور پھُول دیوانے ہیں اُس فضا کے جہاں وہ سانس لیتا ہے
جس چمک کی قدر کرے دلدار میرا اُس میں نِکھرنا چاہُوں
میں چاند اور پایل پرِستار ہیں اُس جہاں کے جسےوہ سنوارتاہے
بدلتے رنگِ موسم میں گُم ہوتے دیکھُوں وہ حسین چشم
میں دھنک اور آنچل عاشق ہیں اُس عرش کے جس میں وہ جگتا ہے
حُسنِ خیال کی رعنائی کے جُدا ہیں قیاس و انداز سبھی
میں خواب اور کاجَل قُربان ہیں اُس سراپا پہ جس میں وہ بستا ہے
شعر و نغمہ میں زندگی بھر دے میرےمحبُوب کا فسانۂِ دل
میں نشہ اور غزل فِدا ہیں اُس ترنّم پہ جسے وہ گُنگُناتا ہے
بہت اعلی انداز ..جدت خیال اور ندرت بیان کا حسین سنگم
اللہ کرے زور قلم ، اور زیادہ
–
اس غزل کو پڑھ کر مجھے بے اختیار صوفی تبسم کی ایک مشہور غزل کے چند اشعار یاد آ گئے
” گر قبول افتد ، زہے عز و شرف ”
===
افسونِ تمنا سے ،………… بیدار ہوئی آخر
کچھ حسن میں بے باک کچھ عشق میں زیبائی
وہ مست نگاہیں ہیں یا وجد میں رقصاں ہے
تسنیم کی لہروں میں فردوس کی رعنائی
آنکھوں نے سمیٹے ہیں نظروں میں ترے جلوے
پھر بھی دلِ مضطر نے تسکین نہیں پائی
سمٹی ہوئی آہوں میں ، جو آگ سلگتی تھی
بہتے ہوئے اشکوں نے وہ آگ بھی بھڑکائی
اک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ
اک گوشہء خلوت میں یہ دشت پنہائی
=
(صوفی غلام مصطفیٰ تبسم )
LikeLike
پسند کرنے کا بہت شُکریہ
LikeLike