اِدھر تمام رات
اُس کی یاد کا دِیا
جلتا رہا آنکھوں میں
اور اُدھر چاندنی اپنے
جوبن سے اُسے
….سُلاتی رہی
اِدھر بندش کی سیاہ
چادروں پہ کِھلے فُرقت
کے پھُول اور اُدھر صُبح
اُس کی خواب گاہ
….سجاتی رہی
اِدھر ماند ہیں رنگ و خوشبو
گُل کے سبھی اور اُدھر
رات کی رانی اُس کا صِحن
….مِہکاتی رہی
اِدھر دستک دی سِتاروں
کے قافلے نے نیند کو اور
اُدھر کہکشاں اپنے جلوے
….دِکھاتی رہی
اِدھر جمتے گئے نشاں
شبنمی موم کےاور اُدھر
شمعٰ اپنی چِنگاریاں
….بھڑکاتی رہی