صنم کی آنکھ سے گِرتا ہے قطرہ قطرہ
چُن لیا ہے میں نے اِسے موتی سمجھ کر
کنارۂِ رُخسار پہ دَم توڑے انمول اَشک
چُوم لیا ہے میں نے اِسے پھُول سمجھ کر
سُرخ چراغ میں بِہتےدیکھا شرارۂِ تِشنگی
پِی لیا ہے میں نے اِسے شبنم سمجھ کر
سمندر کی روانی میں ڈُوبتا نایاب آنسُو
چَکھ لیا ہے میں نے اِسے مِے سمجھ کر
ایک دھیما انداز …ایک پرُسوز آواز ، کوئی چشم ِتر !
یوں کہہ لیں جیسے برَبط ِسوز پر مِضرابِ الم ، دھیرے دھیرے ، کوئی ایسا گیت چھیڑ رہی ہے جس سے رگ و جان سلگ رہے ہیں.
تراشیدم ، پرستیدم ، شکستم ( اقبال )
LikeLike