اُن دنوں اُمنگ پہ جب خُمار تھا
خِزاں کی اُڑتی چَڑھتی سُرخی کا
اور جھانکتی تھی بہار دریچوں
سے تب ہوا اُڑا لے جانا چاہتی تھی
…ارمانوں کو پَر تُم نہیں تھے
اَب جب مِلے ہو تو ارمانوں پہ
….بہار ہی بہار ہے
اُن دنوں جب پیاس چاہتی تھی
سمندر سے گھُونٹ پینا اور بُوند
بُوند کی مُحتاج تھی آس تب
احساس جَگتا تھا ڈُوبنے کا
…پَر تُم نہیں تھے
اَب جب ملے ہو تو پُورا سمندر
….میری آغوش میں ہے
اُن دنوں جب ہاتھ بڑھاۓ تھے
چھُونے کو بے باک کلیوں کے بدن
اور جھرتی رہِیں ہاتھوں سے سبھی
آرزوئیں تب ہونٹ چاہتے تھے چُومنا
….پنکھڑیوں کو پَر تُم نہیں تھے
اَب جب ملے ہو تو لبوں کے کھِلتے
…گُلاب صرف پیِنا جانتے ہیں
اُن دنوں جب نۓ راستوں پہ چلتے
پُرانے آنگن میں ڈھلتے چاند کے سرہانے
بیٹھی ہُوئی مدھم حرارت میں چنگاری
ڈھونڈ رہی تھی تب نظریں ترسی تھیں
…اُس روشنی کو پَر تُم نہیں تھے
اَب جب ملے ہو تو ہر شب چاند کی
…کِرنیں سجدے مُجھے کرتی ہیں
اُن دنوں جب شِدّت بدن میں کروٹ لیتی
تھی اور انگڑائی کی نئی جُستجُو جگاتی
تھی کئی خواہشیں تب سانسیں مِٹ جانے
…کو بے چین تھیں پَر تُم نہیں تھے
اَب جب ملے ہو تو دھڑکنوں پہ دستک
….روز کرتی ہیں تُمہاری سانسیں