جب بھی مِلتے ہیں صنم ہر مُلاقات
بدل جاتی ہے اِک خوشبو میں جس
کے کنارروں کی پنکھڑیاں مہکانے
…لگتی ہیں بدن کی ڈالیِوں کو
جب بھی مِلتے ہیں جانم ہر مُلاقات
بدل جاتی ہے اِک کشش میں جس
کی ڈوریں بے اختیار کِھچتی چلی
جاتی ہیں اُن بُلندیوں پہ جہاں سے
…واپسی کا کوئی راستہ نہیں
جب بھی مِلتے ہیں پِیا ہر مُلاقات
بدل جاتی ہے اِک انداز میں جوجگاتی
ہے مدہوشی جس میں بے خود ہوتے
…ہی جان اور تن ڈُوبنے لگتے ہیں