منزل تَک رسائی نہ سہی تو شکوہ نہیں
سفر کو ہی منزل بنا لِیا ہے میں نے
آدھا سُکھ ہو یا پُورے غم کی چھاؤں
تپِش سے ہی جسم جلا لِیا ہے میں نے
اُس دل سےچین کی آشنائی وابستہ ہے
سرُورکو ہی خوُن میں اُتار لِیاہےمیں نے
بارش کی بُوندوں سے تَر ہوتی نہیں ذات
اَشک سے ہی خُود کو بِھگا لِیا ہے میں نے
عشق آزمائش ہے مِلے جُلے سِلسلوں کی
جنون کو ہی رُوح میں بسا لِیا ہے میں نے