خواب کے فلک سے اُترتے
ہی ایک راستہ جاتا ہے اُس
بادل کی سِمت جہاں بارش
اپنی بانہیں پھیلاۓ اِنتظار
…کر رہی ہوتی ہے
…میں اُس برسات میں نہا کر آئی ہُوں
چاند کی روشنی میں جِھلملاتی
چمک پڑتی ہے زمین کے بدن
پر تو آسمان تک فروزاں ہو
…جاتا ہے وجُود کا
…میں اُس نُور میں نکِھر کر آئی ہُوں
چمن کے پھُولوں کی خوشبو
مہکاتی ہے رُوح کا گُلشن تو
کِھلنے لگتی ہیں ڈالیاں رُوپ
…کی تب زرخیز ہوتی ہے ذات
…میں اُس صندل میں سنور کر آئی ہُوں
شمس کی تاب میں جلتی
ہےچنگاری جس کے عشق
میں ناچتی شعاہیں پِگھلاتی
…ہیں موم شمعٰ کی
…میں اُس آگ میں دُھل کر آئی ہُوں