اُن ڈُوبتے لمحوں کے جمال
میں طُوفان تھا تڑپتے سمندر
کا اور اُس کی تِہہ میں اُترتے
یہ احساس ہُوا کہ ابھی اور
….ڈُوبنا ہے
اُچھلتی دھڑکن کی لے میں
ناچتی شبنم اِس سرُور کو
بھڑکاتی رہی جس کی حِدّت
یہ افسانہ سُناتی ہے کہ ابھی اور
…اُبھرنا ہے
ٹھہِرتی نِگاہ کی ساحر ادا سفر
کرتی ہوئی چہرے کے نرم راستوں
سے گُزرتی رہی جس کی شوخی
یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ابھی اور
…اُترنا ہے