ڈھُونڈتی رہی اُس آہٹ کو میری نظر
مگر دل میں رہی صرف آرزُو بن کر
خیال تھا شاید رات جگمگا اُٹھے پھر
مگر ذہن میں رہی صرف سوچ بن کر
دیکھی سبھی چمک سِواۓ دلدار کے
مگر نگاہ میں رہی صرف آس بن کر
محسوس کی وہ خوشبو اپنےآس پاس
مگر جسم میں رہی صرف مِہک بن کر
سُنی دستک دل کے ٹُوٹنے کی میں نے
مگر آنکھ میں رہی صرف یاد بن کر
فریاد کی کاش جی اُٹھے میری شام
مگر رُوح میں رہی صرف دُعا بن کر