برسے بارش تو گُل تَر ہونے لگتے
ہیں اُس مُحبّت میں جو بوُندیں
چومتی ہیں بدن پھُولوں کا اور
اِسی طرح میرے وجود کے چمن
کو بارش تب سیراب کرتی ہے جب
…اُس کی بانہیں مُجھے تھام لیتی ہیں
جیسے چاند کی بزم میں شِرکت
اُس تارے کی لازمی ہے جس کی تاب
میں وہ اپنی روشنی کی بھی پرواہ
نہیں کرتا تب اِسی طرح میری ہر محفل
… اُس کی رونق کےبغیرادھوری لگتی ہے
رات سیاہ آنچل اوڑھے پلکیں جھپکاۓ
جب اپنی نشیلی چال میں آہستہ آہستہ
ڈھل رہی ہوتی ہے تاکہ جذب ہو سکے
صُبح کے عشق کی چادر میں اِسی طرح
میری آنکھیں راہ تَکتی ہیں اُس نظر کی
جس کو پاتے ہی اُجالے پھیلنے لگتے ہیں
…میری اندھیر نگری کے
آئینے کو اُلفت ہے چہرے سے جس کے
عکس میں عیاں ہوتا ہے بے مثال حُسن
اور ٹُوٹ جاۓ تو ریزہ ریزہ نظر آتی ہے
صُورت بِالکُل اِسی طرح اُس کی نگاہوں
میں خود کو دیکھتی ہوں گر وہ ٹُوٹ جاۓ
…تو میں بھی بِکھر جاؤں گی
رنجیدہ پَل جو گُزرتے ہیں وقت کی گردش
میں قید اور خوشی اپنے انداز سے بِہلاتی
ہے نۓ جوہر دِکھا کر اور اِسی طرح میرے
اُداس لمحوں کا اِنحصار ہوتا ہے اُن حسین
پَلوں پر جب اُس کے وصل میں میری قُربت
…شامل ہوتی ہے