زیبِ ہستی ہے نایاب مُحبّت کا موتی
..پتھّر بنتا ہےہَوس کی لَو میں بِہتے ہی
پوشیدہ ہے خزانہ حُسنِ دل میں
..خس وخاشاک بنتا ہےغرُور کی چاہ میں مِٹتے ہی
نِکھرتا ہے رُوحِ جہاں میں شفاف بادل
..غُبار بنتا ہے نفس کی آڑ میں چُھپتے ہی
عشق تختِ عرش کا قیمتی تاج ہے
..جابر بنتا ہے سنگ دِلی کی آگ میں جلتے ہی
محفلِ نظر کا ہِیرا ہے چمکتا ستارہ
..شُعلہ بنتا ہے سیاہی کی راکھ میں پَلتے ہی
ظَرف سجدہ گر ہے شجرِ گُل کو
..مُردار بنتا ہے فتُور کی مِٹّی میں دَبتے ہی