اُٹھ کے گِرتی ہُوں جب بھی
ایسی فتح کو مات دیتی ہُوں
رُکاوٹ بنتی ہے جب رِہ گُزر
ایسی سِیاحت کو مات دیتی ہُوں
خُود سے جنگ کرنے لگُوں جب
ایسی دُشمنی کو مات دیتی ہُوں
احساس جب روندتا ہے دل کو
ایسی دھڑکن کو مات دیتی ہُوں
رات جب روکے سِتاروں کا قافلہ
ایسی سیاہی کو مات دیتی ہُوں
صنم سے دُور کرے جو قُربت
ایسی فُرقت کو مات دیتی ہُوں
دامن میں جو اُبھریں کانٹے
ایسی سازش کو مات دیتی ہُوں
شمعٰ جس حِصار میں قید ہو
ایسی قندیل کو مات دیتی ہُوں