بے زار ہے شِکن جس سِمت بھی چل نکلوُں
نہ جانےاِس راستےکی منزل ہے بھی کہ نہیں
بے صبر دل تباہ کرنے کو ہے ذات میری
نہ جانے اِس غم کی اِنتہا ہے بھی کہ نہیں
بکھر گۓ سبھی شیِشے میرے آئینے کے
نہ جانےاِس دراڑمیں جوڑ ہے بھی کہ نہیں
پچھتاوے کی ڈور سے بندھ گیا ہے ماضی
نہ جانےاِس تعلّق کی صُبح ہے بھی کہ نہیں
فریب کے پاؤں چلنے لگے ہیں سیدھی چال
نہ جانےاِس سازش میں مات ہے بھی کہ نہیں