…بس اِتنا جاننا ضروری ہے
کیا آج بھی اُن خوابوں کی تعبیِر
میرے وجود کے تکیے سے آشنا ہوگی؟
کیا آج بھی وہ قاتل مُسکراہٹ
خیال میں میرے جھُومتی ہوگی؟
کیا آج بھی بھیگی فضائیں
اُس کی پلکوں پہ موتی بکھیرتی ہوں گی؟
کیا آج بھی اُس غزل کو سُن کر
اُس کی نشیلی کسک ٹُوٹتی ہوگی؟
کیا آج بھی وہ مہکتے گُلاب
اُسےمیری خوشبو کی یاد دِلاتے ہوں گے؟
کیا آج بھی میری پایل کی چھَنک
اُس کی حسرت میں برق لہراتی ہوگی؟
کیا آج بھی اُس کے لمحوں میں
شِدّت بے اختیاری کی چادراوڑھتی ہوگی؟
کیا آج بھی سِتاروں کے جھُرمٹ میں
وہ چمکیلی محفلیں تلاش کرتا ہوگا؟
کیا آج بھی سرد راہوں سے گُزرتے
وہ شمعٰ کی آگ میں جلتا ہوگا؟
…بس اِتنا جاننا ضروری ہے
…بس اِتنا جاننا ضروری ہے