چھُوتے ہی اُس ذُلف کی لہراتی
خُوشبو نے لی انگڑائی اور سانسوں
سے برستی گرم مِہک میں دُھلے
…کئی نَو رنگ آنچل
مخمل سی ریت پہ چمکتے تاروں
نے جب چُومے بدن گُلاب کے تب
صندلی شبنم میں رَچی بے شُمار
بُوندوں نے چکھی شرابوں کی
…کئی نو خیز کلیاں
تِشنگی کی بے قابو آرزو بھڑکاتی
رہی اُس آگ کو اور لِپٹی رہی ہونٹوں
سے موم اور بے بسی کے پیراہن
نے پہنے مرمریں لباس جن کی زینت
…سے روشن ہُوۓ کئی نوَ نیاز عاشق