گُلاب اوڑھےتو کبھی سِتاروں کی چھاؤں
..آنچل ہی سہی وابستہ تو وہی ہے
نہاۓ چمپئی رَس کے عِطر میں کبھی
..گیسُو ہی سہی وابستہ تو وہی ہے
رات بِسری ہے خوابِیدہ نینوں تلے
..نیند ہی سہی وابستہ تو وہی ہے
بجے اِدھر پایل تو لمس جلے چُوڑی کا
..شرارت ہی سہی وابستہ تو وہی ہے
رَگ رَگ کرے شکوہ لبوں سے جام
..تِشنگی ہی سہی وابستہ تو وہی ہے
شمعٰ کی کسک پہ مُسکراۓ ہے پروانہ
..دِل لگی ہی سہی وابستہ تو وہی ہے